Initial pages
Abstract
اداریہ
جامعات تحقیق اور تدریس کے حوالے سے مقتدر حیثیت رکھتی ہیں۔ کسی بھی شعبے کی پہچان اس کا تحقیقی کام ہوتاہے۔ علامہ ڈاکٹر محمد اقبال کے افکار نے اپنے عہد کے ادب کو سب سے زیادہ متاثر کیا ہے ۔ برعظیم کی سیاسی اور ادبی فضا میں انھوں نے انقلاب برپا کردیا۔علامہ اقبال کے استعارات اور مطالب زمانہ ساز اور آفاقی ہیں۔ "طلبۂ علی گڑھ کالج کے نام" میں انھوں نے مطلع میں ہی اپنی انفرادیت کا اظہار کر دیا:
اوروں کا ہے پیام اور، میرا پیام اورہے
عشق کے درد مند کا طرزِ کلام اور ہے
شعبہ اقبالیات نے اپنے تحقیقی جرنل کو اقبال کے " پیام " سے موسوم کیا ہے۔ پوری دنیا میں اقبالیات پر کام مقدار اور معیار کے لحاظ سے بہترین سرمایہ ہے۔
بہاول پور جسے دارالسرور اور بغداد الجدید کے نام سے یاد کیا جاتاہے۔ اس ریاست کی بنیاد ۱۷۴۸ء میں رکھی گئی۔ تعلیم و تدریس اور فلاح کے مقاصد کے تحت اس ریاست نے اہل علم و دانش کو اپنی طرف راغب کیے رکھا۔فروغ ِعلم میں اشاعت کے کردارسے انکار ناممکن ہے ۔ پرنٹنگ پریس کی ایجاد سے ترسیلِ علم میں تیزی آئی۔ ۱۸۶۶ء میں بہاول پور میں "صادق الانور" چھاپہ خانہ قائم ہوا۔ اس زمانے میں سرکاری خط کتابت فارسی اور انگریزی میں ہوا کرتی تھی۔ اگلے سال ۱۸۶۷ء میں "صادق الاخبار" جاری ہوا۔ جس کی بدولت اردو کی اشاعت و ترویج میں بہاول پور نمایاں رہا ہے۔ اس کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ سررابرٹ ایجرٹن (لیفٹینٹ گورنر پنجاب )نے اختیارات کی تفویض کی تقریر ( اس دور میں ) اردو میں کی۔ فارسی اور انگریزی کا چلن جاتا رہا اور ریاست کی مراسلت اردو میں ہونے لگی۔ یوں نجی خطوط بھی اردو میں لکھے جانے لگے۔ کئی کتب اردو میں شائع ہوئیں۔
نوابانِ ریاست بہاول پور عوام کے حقیقی سرپرست اور تعلیم دوست حکمران تھے۔ انھوں نے ریاست میں کئی تعلیمی ادارے قائم کیے۔ جون ۱۹۲۵ء میں سر صادق محمدخاں خامس نے علامہ محمد اقبال اور سید سلیمان ندوی کی مہمیز پر جامعہ کی بنیاد رکھی جس کا مقصد الازھر کی طرز پر عالمی اسلامی جامعہ کا قیام تھا ۔ اکتوبر ۱۹۶۳ء میں اسے جامعہ عباسیہ کا نام دے دیا گیا۔ مارچ ۱۹۷۵ء میں پنجاب اسمبلی نےقانونی طورپر اس ادارے کو اسلامیہ یونی ورسٹی کا درجہ دے دیا۔موجودہ شیخ الجامعہ انجینئرپروفیسر ڈاکٹراطہر محبوب کی اقبال پسندی، حب الوطنی اور دُوراندیشی کے طفیل شعبہ اقبالیات کا قیام عمل میں آیا ہے۔ اس نوزائیدہ شعبے نے جہاں اپنے قیام کے مختصر عرصے میں اوربہت سی کامیابیاں سمیٹی ہیں وہاں تحقیقی مجلہ"پیام " کا بھی آغاز کردیا ہے۔ اس کا پہلا شمارہ پیشِ خدمت ہے۔ خود ستائشی کے بجائے تحقیقی کام سے اپنے وجود کا احساس دلانا بہترین عمل ہے۔ "پیام " کی ٹیم نے کم ہونے کا شکوہ نہیں کیا بلکہ اپنے حصے کی شمع جلانے کی ذمہ داری نبھانے کا فیصلہ کیا۔ اس مرحلے پر میں عزت مآب شیخ الجامعہ انجینئر پروفیسر ڈاکٹر اطہر محبوب اور پروفیسر ڈاکٹر جاوید حسان چانڈیو ڈین فیکلٹی آف آرٹس اینڈ لینگویجز کا انتہائی ممنون ہوں کہ جن کی سرپرستی ، نگرانی اور مہربانی ہماری تمام کامیابیوں کا حتمی سہارا رہی ہے۔ "پیام " کی قومی و بین الاقوامی مجلسِ مشاورت کا شکرگزارہوں کہ انھوں نے ہماری استدعا کو اعزازِ قبولیت سے سرفراز فرمایا۔ تمام مقالہ نگاران کی نوازشات کا شکریہ اوراہلِ علم سے استدعا ہے کہ وہ اقبالیات ، تصوف اور اسلامی ادب سے متعلق تحقیقی نگارشات کے ضمن میں دستِ تعاون دراز رکھیں گے۔
ربِ محمد عزوجل و ﷺ ہمارا حامی و ناصر ہو! آمین
ڈاکٹر محمد رفیق الاسلام
(مدیر)